Sunday 12 June 2022

کہ اک قصۂ کہنہ کو پھر سے دہرایا ہم نے

 ایک قصۂ کہنہ کی تجدید


نگاہ فسوں ساز

دل میں اتر کر

زمانہ سے بیگانہ سا کر گئی

لہو قطرہ قطرہ

نگاہوں سے زنجیر بن کر ٹپکتا رہے گا

یہ طوفانی موجیں

یوں ہی کب تلک مجھ سے

آ آ کے ٹکرائیں گی

آگ کب تک جلے گی

دھواں کب تلک یوں ہی اٹھتا رہے گا

یہ کیسے ہوا

سارے رشتے فقط ایک ہی ذات میں آ سمائے

ہمیں ناز ہے

کہ ہم نے وہ صدیوں پرانی کہانی دوبارہ کہی ہے

کہ اک قصۂ کہنہ کو پھر سے دہرایا ہم نے

وہ صدیوں پرانی کہانی

جسے آج کی دوڑتی بھاگتی

زندگی نے فراموش سا کر دیا تھا


نجمہ محمود

No comments:

Post a Comment