ایک قصۂ کہنہ کی تجدید
نگاہ فسوں ساز
دل میں اتر کر
زمانہ سے بیگانہ سا کر گئی
لہو قطرہ قطرہ
نگاہوں سے زنجیر بن کر ٹپکتا رہے گا
یہ طوفانی موجیں
یوں ہی کب تلک مجھ سے
آ آ کے ٹکرائیں گی
آگ کب تک جلے گی
دھواں کب تلک یوں ہی اٹھتا رہے گا
یہ کیسے ہوا
سارے رشتے فقط ایک ہی ذات میں آ سمائے
ہمیں ناز ہے
کہ ہم نے وہ صدیوں پرانی کہانی دوبارہ کہی ہے
کہ اک قصۂ کہنہ کو پھر سے دہرایا ہم نے
وہ صدیوں پرانی کہانی
جسے آج کی دوڑتی بھاگتی
زندگی نے فراموش سا کر دیا تھا
نجمہ محمود
No comments:
Post a Comment