میں تیری مرضی میں شامل اپنی رضا کروں گا
تو اپنے خوابوں سے عشق کر میں دعا کروں گا
جو پہلا اندھا ملے گا اس کا بھلا کروں گا
نہ جن میں تو ہو میں ایسی آنکھوں کا کیا کروں گا
اگر وہ اک شخص میرے حصے میں آ گیا تو
میں شہر بھر کی قضا نمازیں ادا کروں گا
اگر کوئی میرے عشق کے راستے میں آیا
میں ترس کھاؤں گا اور نہ خوفِ خدا کروں گا
سفر میں ہوں روزو شب کے خود کار راستے پر
جو چلتے چلتے یہ رک گیا تو میں کیا کروں گا
میں دے چکا وقت کو جوانی بھی بچپنا بھی
اور اپنے ہونے کی کتنی قیمت ادا کروں گا
یہ چاندنی کا لحاف برتا ہوا ہے سب کا
میں اپنی شب تیرے نور سے دودھیا کروں گا
دیارِ غم میں خوشی کو آباد کر رہا ہوں
جب آخری گھر بسے گا میں بھی ہنسا کروں گا
میں مسجدوں کو عزیز جانوں کہ مندروں کو
کبوتروں سے یہ پوچھ کر فیصلہ کروں گا
سخن کے سکوں پہ پھر بھی میری شبیہ ہو گی
میں آج مر جاؤں سونے چاندی کا کیا کروں گا
حنوط کر ہی لیا ہے آخر کو ہجر میں نے
اب اس کی تصویر پر کوئی تجربہ کروں گا
بھلے تعلق سخن سے ہو یا شکم سے اس کا
میں اپنے حصے کے رزق پر اکتفا کروں گا
کبیر! بیساکھیاں چھڑاؤں گا اور اک دن
میں اپنے پیروں پہ اپنے دکھ کو کھڑا کروں گا
کبیر اطہر
No comments:
Post a Comment