Wednesday 15 June 2022

مائے سنو ماں جی نہیں لگتا قسم سے

 مائے


سنو ماں

جی نہیں لگتا

قسم سے

اب تمہارے بِن یہاں پر جی نہیں لگتا

تم اچھی تھیں بہت مائے

بتایا تک نہیں مجھ کو

بِنا سسکی بھرے، اک خواب میں سوئیں

تو جاگیں دوسری جانب

اور اتنی دور جا نکلیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی

ہمیشہ ڈانٹتی تھیں تم

"بتائے بِن کبھی بھی دیر تک باہر نہ بیٹھا کر"

مگر خود کیا کِیا مائے

کوئی ایسے بھی کرتا ہے؟

عدم آباد کی دیوار کے اُس پار ایسے جا کے بیٹھی ہو

جہاں سے یاد آ سکتی ہے لیکن، تم نہیں مائے

جہاں تم ہو

وہاں سب خیر ہے، پیارا ہے اور سر سبز ہے سب کچھ

وہاں دھڑکا نہیں کوئی

یہاں خطرہ ہی خطرہ ہے

ہوس زادوں کے ہاتھوں عشق کی تحقیر لاگو ہے

میں اب تک اس خدا کے ساتھ ہوں

جس کا تعارف تم نے بچپن میں کرایا تھا

بتایا تھا

خدا ظُلمت نہیں ہوتا

خدا خود آگہی کا اسمِ اعظم ہے

خدا کے نام لیوا، نام لیوائی کا خدشہ بھی نہیں رکھتے

تمہی نے تو سکھایا تھا

علی اپنا، حسین اپنا، عُمر اپنا ، ہر اک صدیق ہے اپنا

نگاہوں ہی نگاہوں میں کوئی تنبیہ تھی جو جاری ہوتی تھی

وہ کیسی سرزنش تھی

جو نہایت پیار سے تعلیم دیتی تھی

بھلا ہم ایسے لاعلموں کو کب معلوم ہوتا تھا

کہاں ہنسنا، کہاں ہنسنا نہیں ہے

تم بتاتی تھیں

مجھے سب یاد ہے مائے

تمہاری قبر کی مٹی کی خوشبو سے لپٹتا ہوں

تو پھر یہ سوچتا ہوں

کس جگہ ہوں میں

خدا کے نام لیواؤں کو اک ماں کی ضرورت ہے

جو ان کو نرم کر پائے

جو ان کو یہ بتا پائے

خدا ظالم نہیں ہوتا

سنو مائے

میں تم کو یاد کرتا ہوں

خدا بھی یاد آتا ہے

خدا کو یاد کرنا بھی تمہی نے تو سکھایا تھا


علی زریون

No comments:

Post a Comment