Thursday 16 June 2022

جاری تھی کب سے کن کی صدا روک دی گئی

 جاری تھی کب سے کُن کی صدا، روک دی گئی

لیکھک کا دل بھرا تو کتھا روک دی گئی

اس نے تو صرف مجھ کو اشارہ کیا کہ رک

ہر چیز اپنی اپنی جگہ روک دی گئی

ہر شب ہوا سے بجتی تھیں سب بند کھڑکیاں

اک شب وہ کھول دیں تو ہوا روک دی گئی

جانے ہیں کتنی چوکیاں، عرشِ بریں تلک

جانے کہاں ہماری دعا روک دی گئی

میں لاعلاج ہو گیا ہوں، یوں پتہ چلا

اک دن، بِنا بتائے، دوا روک دی گئی

گریے کو ترک کر کے میں خوش باش ہو گیا

غم مر گیا جب اس کی غذا روک دی گئی

میری سزائے موت پہ سب غمزدہ تھے، اور

میں خوش کہ زندگی کی سزا روک دی گئی


عمیر نجمی

No comments:

Post a Comment