Saturday 11 June 2022

میرے ہونٹوں سے پہلے ہنسی چھینتا

 میرے ہونٹوں سے پہلے ہنسی چھینتا

پِھر مِرا دل، مِری زندگی چھینتا 

اور لُٹتے کو ہی پاس کیا تھا مِرے

آنکھ میں رہ گئی تھی نمی، چھینتا

جو اندھیروں میں پل کر ہوا خود جواں

کیا بھلا وہ مِری آگہی چھینتا

میں نے کُچلا ہے سر، اُس نے پہلے مِرا

چاند چھینا تھا اب چاندنی چھینتا

جو بھی ہوں شُکر ہے، حکمراں تو نہِیں

ورنہ ہر اک نگر، ہر گلی چھینتا

میرے بس میں نہِیں کھیل تقدیر کا

تھا یہ ممکن خوشی آپ کی چھینتا

کاش آتی کوئی ایسی کاری گری

زور والوں کی زور آوری چھینتا

حکمراں اس پہ قدرت کا حامل نہِیں

دل تو چھینا ہی تھا، دل لگی چھینتا

زہر لگتی ہیں حسرت جو یہ بولیاں

کُوک کوئل، پپیہا سے "پی" چھینتا


رشید حسرت

No comments:

Post a Comment