Saturday 11 June 2022

کہیں دریائے راوی کے کنارے

 لاجونتی


کہیں دریائے راوی کے کنارے

نہاتے تھے جہاں راتوں کر تارے

نشیبِ کوہ میں اک جھونپڑی تھی

جو خود رو لالہ زاروں میں کھڑی تھی

بڑھاپے کی مئے بے رنگ سے چور

وہاں رہتا تھا اک بے چارہ مزدور

نقاہت سے نہ تھا محنت کا یارا

اسے دو بیٹیوں کا تھا سہارا

بڑی ان دونوں میں سے تھی لاجونتی

مقابل میں جو شمشادوں کے تنتی

تھے اس کے حسن سے جنگل سہانے

دبے تھے پاؤں کے نیچے ترانے

سحر کی طرح جب وہ مسکراتی

شرارے سرخ پھولوں سے اڑاتی

جو اڑتی زلف اس کی پیچ در پیچ

نظر آتا خرامِ ابر بھی ہیچ

کہیں اس سے برس چھوٹی تھی رانی

شرابِ نور تھی اس کی جوانی

وہ اس کی حسن سے مخمور آنکھیں

وہ موٹی موٹی موتی چور آنکھیں

ندی اس کی اداؤں پر مچلتی

ہوا اس کا اشارا پا کے چلتی

ذرا اس جھونپڑی سے دور ہٹ کر

کہیں اس خوشنما وادی کے اندر

جواں رہتا تھا اک رادھے سوامی

جوانی اور محبت کا پیامی

وہ جب اپنا پہاڑی ساز اٹھاتا

دلوں میں سوز کی شمعیں جلاتا

جوانی اس کی جب بربط پہ جھکتی

نوا سے بادلوں کی سانس رکتی

ہوا ہونٹوں کو اس کے چومتی تھی

شرابی ہو کے فطرت جھومتی تھی

گزرتی جب ادھر سے لاجونتی

کلیجے کو بجز تھامے نہ بنتی

محبت تھی اسے رادھے کی لے سے

وہ لے میٹھی تھی جو ہراک شے سے

سمجھ کر عشق کا اس کو شوالا

بنا لاتی وہ اک پھولوں کی مالا

وہ مالا عشق جس کی بو سے جاگے

اٹھا کر ڈال دیتی اس کے آگے

مگر وہ بے خودی سے لو لگائے

نوا پرداز رہتا سر جھکائے

ادھر سے ہو کے رانی جب گزرتی

جوانی اس کے آگے رقص کرتی

جو رادھے دیکھتا رانی کو آتے

اسے وہ سرمدی سُر بھول جاتے

وہ تھا اس کی محبت کا بھکاری

جوانی کے شوالے کا پجاری

مگر رانی تھی اک بُوئے پریدہ

محبت سے نہ تھی لذت چشیدہ

محبت جب گریباں چاک پھرتی

وہ آہو کی طرح بے باک پھرتی

غزل خواں اک برس آئی جو برسات

ہوئی رادھے کی رانی سے ملاقات

ندی میں دودھ تھا فطرت کا جاری

ہواؤں پر تھی بادل کی سواری

اسے اس طرح تنہائی میں پا کر

ہوا بے باک عشقِ روح پرور

وہ مالا آج لاجو نے جو دی تھی

ابھی تک سامنے اس کے پڑی تھی

نیازِ عشق کا دے کر حوالا

اسے رادھے نے پہنا دی وہ مالا

جوانی نے محبت کو جگایا

چراغِ آرزوئے دل جلایا

وہ رانی تھی محبت سے جو عاری

ہوئے آنکھوں سے اس کے اشک جاری

وہ اب سمجھی کہ پُروائی ہوائیں

حقیقت میں ہیں رادھے کی نوائیں

وہ اب سمجھی کہ پھولوں کی جوانی

حقیقت میں ہے رادھے کی کہانی

دیے جب جل اٹھے سب بستیوں میں

اٹھی وہ غرق ہو کر مستیوں میں

دوپٹہ ڈال کر سر پر بسنتی

کھڑی تھی راستے میں لاجونتی

پڑیں اس کی جو مالا پر نگاہیں

لبوں تک رہ گئیں آ آ کے آہیں

یہ مالا تھی بلائے نا گہانی

ہوئی سب منکشف اس پر کہانی

مصیبت سے کوئی کس طرح بھاگے

اندھیرا چھا گیا آنکھوں کے آگے

وہ بستی کے دیے کی مسکراہٹ

وہ جھونکوں کی ترانہ ریز آہٹ

وہ شب کی ناچتی پریوں کے سائے

وہ بادل بستیوں پر سر جھکائے

اسے سب یاد رادھے کی دلاتے

تپیدہ حسرتوں کو خوں رلاتے

نظر آیا نہ جب کوئی ٹھکانہ

ہوئی دریائے راوی کو روانہ

اسے برسات نے جانے سے روکا

سہانے آبشاروں نے بھی ٹوکا

جوانی اس کے پیچھے پیچھے بھاگی

فضا شورِ قیامت سن کے جاگی

پہنچ کر دور راوی کے کنارے

شکستہ آرزوؤں کے سہارے

نئی اک زندگی کی ہو کے جویا

ہوئی اس طرح تنہائی میں گویا

مِرے شاہد ہو تم اے دیوتاؤ

جوانی اور محبت کے خداؤ

قیامت عشق پر ڈھائی گئی ہے

جوانی میری ٹھکرائی گئی ہے

کہاں اب آرزووں کے ترانے

یہاں آئی ہوں بھینٹ اپنی چڑھانے

کہا یہ اور آنچل سر پہ ڈالے

ندی کے کر دیا خود کو حوالے

فضا کو آ گیا ٹھنڈا پسینہ

دھڑک اٹھا گلستانوں کا سینہ

ہوا نے اپنے میٹھے گیت چھوڑے

ندی نے آبلے سینے کے پھوڑے

گئی وہ عشق کے امرت کی پیاسی

نظر آنے لگی ہر سو اداسی

بچارا دل شکستہ اور رنجور

کبھی کا مر چکا ہے بوڑھا مزدور

بیاہی بھی گئی رادھے سے رانی

ہوئی یکجا محبت اور جوانی

محبت میں ہیں دونوں اب بھی سچے

ہیں شاہد اس کے دو معصوم بچے

یہ بچے ہیں نہایت بھولے بھالے

حریمِ جنتِ فطرت کے پالے

کبھی راوی میں آتا ہے جو طوفاں

کہا کرتی ہے نرائن سے راماں

صدا باہر جو پیدا ہو رہی ہے

یہ خالہ لاجونتی رو رہی ہے


سراج الدین ظفر

No comments:

Post a Comment