جیون کے بے انت سفر پر کب میں بے اسباب رہا
دل میں تیری یاد رہی، آنکھوں میں تیرا خواب رہا
تم جس کی پرچھائیں کو اب ملکوں ملکوں ڈھونڈتے ہو
میں نے اس کی اک چھب دیکھی اور برسوں بے تاب رہا
اب بھی آنکھیں خشک رہیں تو ساری دنیا بولے گی
ایک شجر ایسا بھی تھا جو دریا میں بے آب رہا
اک دن میرے دروازے پر صحراؤں نے دستک دی
میں نے دروازہ کیا کھولا، پھر گھر میں سیلاب رہا
ان پھولوں کے بیچ ابد تک سات جنم کی دوری تھی
تیرے لبوں پر اور مرے ہاتھوں میں سرخ گلاب رہا
احمد شہریار
No comments:
Post a Comment