قافلے دل میں اداسی کے جب آباد ہوئے
جتنے معمار تھے اس شہر کے فرہاد ہوئے
پہلے ملتا تھا فقط ہجر کا آزار ہمیں
وقت کے ساتھ کئی روگ پھر ایجاد ہوئے
دوستانہ سی طبیعت کے خد و خال لیے
عارفانہ سے جو چہرے تھے مجھے یاد ہوئے
یوں نہیں ہے کہ فقط تیرا ہی ذکر آئے گا
اور بھی لوگ حسیں حصۂ روداد ہوئے
ہم کہ ہر وقت کے رونے سے تھے بیزار بہت
ہم نے جھیلا ہے تغافل بِنا برباد ہوئے
یہ الگ بات کہ ہم دور ہوئے تم سے مگر
کون کہتا ہے تری فکر سے آزاد ہوئے
یاد آتے رہیں گے عمر بھر آذر! ہم کو
چند لمحے جو کسی قرب کی معیاد ہوئے
فہیم رحمان آذر
No comments:
Post a Comment