Saturday 18 June 2022

خدا کا سوال؛ بتا کیا کیا تو نے میرے لیے

خدا کا سوال 

 فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ اس آیہ کے تناظر میں کہی گئی ایک نظم


میرے رب کی مجھ پر عنایت ہوئی 

کہوں بھی تو کیسے عبادت ہوئی 

حقیقت ہوئی جیسے مجھ پر عیاں 

قلم بن گیا ہے خدا کی زبان 

میرے رب کی مجھ پر عنایت ہوئی 

کہوں بھی تو کیسے عبادت ہوئی 

حقیقت ہوئی جیسے مجھ پر عیاں

قلم بن گیا ہے خدا کی زباں

مخاطب ہے بندے سے پروردگار 

تُو حسن چمن، تُو ہی رنگ و بہار 

تُو معراج فن تُو ہی فن کا سنگھار 

مصور ہوں میں تُو میرا شاہکار 

یہ صبحیں یہ شامیں یہ دن اور رات 

یہ رنگین دلکش حسین کائنات 

یہ حور و ملائک وہ جنات میں

کیا ہے تجھے ہی اشرف المخلوقات 

میری عظمتوں کا حوالہ ہے تُو 

تُو ہی روشنی، اجالا ہے تُو 

فرشتوں سے سجدہ بھی کروا دیا 

تیرے لیے میں نے کیا نہ کیا 

یہ دنیا، یہ جہاں بزمِ آرائیاں

یہ محفل، یہ میلے، یہ تنہائیاں

فلک کا تجھے شامیانہ دیا 

زمین پر تجھے آب و دانہ دیا 

ملے آبشاروں سے بھی حوصلے 

پہاڑوں میں تجھ کو دئیے راستے 

یہ پانی ہوا اور یہ شمس و قمر

یہ موجیں رواں یہ کنارا بھنور 

یہ شاخوں پہ غنچے چٹختے ہوئے 

فلک پر ستارے چمکتے ہوئے 

یہ شعلہ, یہ شبنم, یہ مٹی, یہ سنگ

یہ جھرنوں کے بجتے ہوئے جلترنگ 

یہ جھیلوں میں ہنستے ہوئے سے کنول 

یہ دھرتی پہ موسم کی لکھی غزل 

یہ سردی، یہ گرمی، یہ بارش یہ دھوپ 

یہ چہرہ یہ قد اور یہ رنگ روپ

درندوں چرندوں پہ قابو دیا 

تجھے بھائی دے کر کے بازو دیا 

بہن دی تجھے اور شریک سفر

یہ رشتے یہ ناطے گھرانہ اور گھر

 اولاد بھی دی اور دئیے والدین 

الف لام میم  قاف اور عین غین

یہ عقل و ذہانت شعور و نظر 

یہ بستی یہ صحرا یہ خشکی یہ تر 

اور اس پہ کتابِ ہدایت بھی دی 

نبی بھی اتارے شریعت بھی دی 

غرض کہ سبھی کچھ ہے تیرے لیے 

بتا کیا ہے کِیا تُو نے میرے لیے

بتا کیا کِیا تُو نے میرے لیے


ابرار کاشف

No comments:

Post a Comment