Saturday 18 June 2022

میرے شہکار کو بے کار کا غم کھاتا ہے

 میرے شہکار کو بے کار کا غم کھاتا ہے

اب میسر کو بھی درکار کا غم کھاتا ہے

نیند تنہا ہی کہیں بیٹھ کے رو لیتی ہے

اس کو اب دیدۂ بیدار کا غم کھاتا ہے

ایسا دیکھا ہے کہ دیوار پہ دیوار گِری

جیسے دیوار کو دیوار کا غم کھاتا ہے

آئینہ ٹُوٹ گیا عکس ادا کرتے ہوئے

آئینے کو بھی اداکار کا غم کھاتا ہے

جب میں اِس پار کے سب درد اٹھا لیتا ہوں

تب مجھے ٹُوٹ کے اُس پار کا غم کھاتا ہے


فضل عباس

No comments:

Post a Comment