میرے شہکار کو بے کار کا غم کھاتا ہے
اب میسر کو بھی درکار کا غم کھاتا ہے
نیند تنہا ہی کہیں بیٹھ کے رو لیتی ہے
اس کو اب دیدۂ بیدار کا غم کھاتا ہے
ایسا دیکھا ہے کہ دیوار پہ دیوار گِری
جیسے دیوار کو دیوار کا غم کھاتا ہے
آئینہ ٹُوٹ گیا عکس ادا کرتے ہوئے
آئینے کو بھی اداکار کا غم کھاتا ہے
جب میں اِس پار کے سب درد اٹھا لیتا ہوں
تب مجھے ٹُوٹ کے اُس پار کا غم کھاتا ہے
فضل عباس
No comments:
Post a Comment