Saturday, 18 June 2022

کوئی خواہش کوئی ارماں کوئی حسرت نہ رہے

کوئی خواہش، کوئی ارماں، کوئی حسرت نہ رہے 

اتنا روئیں کہ ہمیں کوئی شکایت نہ رہے 

غیر مُمکن ہے مگر سعی تو کر کے دیکھیں 

شعلۂ ضبط کی پھر دل میں حرارت نہ رہے 

دُور اتنے نہ رہو تم کہ بہت مُمکن ہے 

مجھ کو اک روز تمہاری بھی ضرورت نہ رہے 

ہم سے ہے دوزخ و جنت کا تماشا یا رب 

ہم نہ ہوں گر تو کوئی ان کی حقیقت نہ رہے 

ان کو انسان جہانگیر! کہوں میں کیسے؟ 

چاہتے ہیں جو زمانے میں محبت نہ رہے 


علیم جہانگیر

No comments:

Post a Comment