Tuesday 14 June 2022

دل پہ گزری جو زباں تک نہیں لانے والے

 دل پہ گزری جو زباں تک نہیں لانے والے

ہم ہیں زخموں کے بہت ناز اٹھانے والے

کیسی بستی ہے خدا جانے یہ اسرار ہے کیا

لوٹ کر پھر نہیں آتے کبھی جانے والے

تُو بہت شور مچاتا ہے مِرے پہلو میں

ہم تِری بات میں اے دل! نہیں آنے والے

اپنی بربادی کا ہم کو تو کوئی غم بھی نہیں

کیوں قیامت یہ اٹھاتے ہیں زمانے والے

تجھ کو فرصت نہیں دنیا تو کوئی بات نہیں

قصۂ درد کہاں ہم بھی سنانے والے

بیچ رستہ میں بدل لی ہیں جو راہیں تم نے

دور تک ہم بھی کہاں ساتھ تھے جانے والے

اپنی مٹی کی محبت میں ہوئے خوار ندیم

گاؤں کو چھوڑ کے جاتے رہے جانے والے


عبداللہ ندیم

No comments:

Post a Comment