Tuesday 14 June 2022

لکھیں گے نہ اس ہار کے اسباب کہاں تک

 لکھیں گے نہ اس ہار کے اسباب کہاں تک

رکھیں گے مِرا دل مِرے احباب کہاں تک

گرتی ہوئی دیوار کے سائے میں پڑا ہوں

شل ہوں گے نہ آخر مِرے اعصاب کہاں تک

حسرت ہے کہ تعبیر کے ساحل پہ بھی اتروں

دیکھوں گا یونہی روز نئے خواب کہاں تک

آواز سے عاری ہیں جو ٹوٹی ہوئی تاریں

کام آئے گی اس حال میں مضراب کہاں تک

وہ ابر کا ٹکڑا ہے، مگر دیکھنا یہ ہے

ہوتی ہیں نگاہیں مِری سیراب کہاں تک

کچھ دور کنارے کے مناظر تو ہیں لیکن

جائے گا یہ دریا یونہی پایاب کہاں تک

ڈرتا ہوں کہیں ضبط کا پل بیت نہ جائے

شعلوں کو چھپاؤں گا تہِ آب کہاں تک


انعام الحق جاوید

No comments:

Post a Comment