Tuesday 14 June 2022

سنو یہ مرلی کیسی کرتی ہے شکایت

 مرلی کا گیت


سنو یہ مرلی کیسی کرتی ہے شکایت

ہیں دور جو پی سے، انکی کرتی ہے حکایت 

کاٹ کے لائے مجھے، جس روز ون سے

سن روئے مرد و زن، میرے سر کے غم سے

کھوجتا ہوں ایک سینہ فرقت سے زرد زرد

کر دوں بیان اس پر اپنی پیاس کا درد

کر دیا جس کو وقت نے اپنوں سے دور

کرے دعا ہر دم یہی، واپسی ہوئی منظور

میری فریاد کی تان ہر مجلس میں ہوتی ہے

بدحالی میں ہوتی ہے اور خوشحالی میں ہوتی ہے

بس اپنے من کی سنتا سمجھتا ہر کوئی

کیا ہے چھپا میرے دل میں، جانتا نہیں کوئی

راز میرا فریادوں سے میری، الگ تو نہیں

آنکھ سے، کان سے یہ کھلتا مگر جو نہیں

تن سے جان اور جان سے تن چھپا نہیں ہے

کسی نے بھی مگر جان کو دیکھا نہیں ہے

ہوا ہے تان میں مرلی کی ؟ نہیں سب آگ ہے

جس میں نہیں یہ آگ، وہ تو مردہ باد ہے

مرلی کے اندر آگ عاشق کی ہوتی ہے

عاشق کی ہی تیزی مے میں بھی ہوتی ہے

ہو گئی مرلی اسی کی یار، پائی جس میں پیر

دے دیا ان کو سہارہ، کر میرا پردہ چیر

مرلی سا زہر بھی دوا بھی، کس نے دیکھا ہے

ہمدرد سچا مرلی جیسا کس نے دیکھا ہے

کھوں سے بھری راہوں سے مرلی آغاز کرتی ہے 

روداد گاڑھے عشق کی مجنوں کی کہتی ہے

ہوش سے انجان وہ سب، جو بے ہوش نہیں ہے 

اس آواز کو جانے وہ کیا، جسے کان نہیں ہے 

درد ایسا ملا جو ہے ہر وقت میرے ساتھ

وقت ایسا ملا، ہر لمحہ تپش کے ساتھ

بیتے جا رہے یہ دن یوں ہی، کوئی بات نہیں

تو بنے رہنا یوں ہی، تجھ سا کوئی پاک نہیں

جو مچھلی تھے نہیں، پانی سے سب تھک گئے 

لاچار تھے جو، دن ان کے جیسے تھم گئے 

نا سمجھیں گے جو کچے ہیں، پکنا کس کو کہتے ہیں

نہیں یہ راز گودے کے، چھلکا اس کو کہتے ہیں

تو ہو آزاد اے بچے، قیدوں سے دراروں کی

رہوگے بند کب تک، چاندی میں دیواروں کی

ساگر کو بھرو گے گاگر میں، کتنا آئےگا

عمر میں ایک دن جتنا بھی نا آئے گا

بھرو لوبھ کا گاگر، کبھی بھر پاؤ گے نہیں

خود کو بھرتا موتیوں سے، سیپ پاؤ گے نہیں

کر دیا جس کا غریباں عشق نے ہو چاک

لوبھ لالچ کی برائی سے، ہو گیا وہ پاک

ای عشق تو خوش باش ہو اور زندہ باد ہو

ہماری سب بیماری کا بس تجھ سے علاج ہو

تو ہے دوا غمان کی اور ہے غرور کی

تجھ سے ہی قائم ہے لو، خرد کے نور کی

یہ خاک کا تن عرش تک، جاتا ہے عشق سے

خاک کا پربت بھی جھومتا گاتا ہے عشق سے

عاشقو اس عشق نے ہی جان دی کوہِ طور میں

تھا طور مستی میں، تھی غشی موسیٰ حضور میں

لبے سرخ کے یار سے غرچے مجھے چوما جاتا

مجھ سے بھی مرلی سا شیریں سر باہر آتا

دور کوئی رہتا ہم زبانوں سے جو ہو

بس ہو گیا گونگا، سو زباں واقف وہ ہو

چونکہ گل اب ہے نہیں ویراں بغیچا ہو گیا

بعد گل کے، بند گانا بلبلوں کا ہو گیا

معشوق ہی ہے سب کچھ، عاشق ہے بس پردہ

معشوق ہی بس جی رہا ہے، عاشق تو ایک مردہ 

ایسا نہ ہو عاشق تو عشق کا کیا حال ہو

پرندہ وہ اک جس کے گر گئے سب بال ہو

ہوش میں کیسے رہوں میں، بڑی مشکل میں ہوں

یار کو دیکھے بِنا، ہر گھڑی مشکل میں ہوں

ارمان ہے عشق کا، اس راز کو دنیا سے بولے 

ممکن ہو یہ کس طرح، آئینہ جب سچ نہ کھولے 

سچ بولتا آئینہ تیرا، سوچ کیوں نہیں؟

چہرہ اس کا زنگ سے، جو صاف ہے نہیں


مولانا رومی

No comments:

Post a Comment