آنکھ مچولی
لوگ اکثر
ہمارے پیروں تلے سے زمین
آنکھوں کے سامنے سے راستے
ذہن سے منزل کے نشان
اور دل سے جیت کا یقین چھین کر
ہماری پیشانی کو ہار کا ٹیگ
ہاتھوں میں بند گلی کی سفارش
اور آنکھوں کو خوش گمانی کی پٹی دے کر
کسی اندھے کنویں کے کنارے
تنہا چھوڑ جاتے ہیں
اور اکثر یہ لوگ وہی ہوتے ہیں
جن کے لیے ہمارے دلوں میں محبت
اندھی ہوتی ہے
سجل احمد
No comments:
Post a Comment