Sunday 19 June 2022

کچھ یقیں بھی آ چلا وہم و گماں کے ساتھ ساتھ

کچھ یقیں بھی آ چلا وہم و گماں کے ساتھ ساتھ

چل پڑی جوئے رواں، ریگِ رواں کے ساتھ ساتھ

نام لیتے ہی تِرا، سینے میں سیلاب آ گیا

تو تہہِ دل میں بھی ہے نوکِ زباں کے ساتھ ساتھ

ڈوبنے دیں گے نہ اب اس دل نشیں مہتاب کو

ہم بھی گردش میں رہیں گے آسماں کے ساتھ ساتھ

بہہ رہا ہے دل کسی کاغذ کی ناؤ کی طرح

ہوں سرِ ساحل رواں، آبِ رواں کے ساتھ ساتھ

بڑھتا جاتا ہے مِری انجام بینی کے سبب

خوفِ تنہائی ہجومِ دوستاں کے ساتھ ساتھ

دل کی تنویریں کُجا، لفظوں کی تصویریں کُجا

کھل گیا عجزِ بیاں، طرزِ بیاں کے ساتھ ساتھ

جانے یہ الفت ہے یا بے اعتمادی ہے کہ لوگ

رات دن پھرتے ہیں اپنے رازداں کے ساتھ ساتھ

ہو سکے خورشید تو کچھ یوں بسر کر جائیے

دل خدا کے ساتھ ہو، پیکر جہاں کے ساتھ ساتھ


خورشید رضوی

No comments:

Post a Comment