Sunday, 19 June 2022

وفا کرنا تھا اک پیمان ہم نے

وفا کرنا تھا اک پیمان ہم نے

کیا ہے ذات کا نروان ہم نے

اندھیرے میں جسے جانا ہے جائے

سنا ہے آج پھر اعلان ہم نے

انا کی لاج رکھنا تھا ضروری

جنوں کو کر دیا حیران ہم نے

ہمیں منصب دکھائے جا رہے ہیں

کبھی جو کر دیئے تھے دان ہم نے

تمہارے ہجر سے دل ڈوبتا تھا

مگر پھینکا نہیں سامان ہم نے

اداکاری بھی کی تو دل سے کی ہے

تماشے میں گنوا دی جان ہم نے

کسی کا نام لے کر آنسوؤں کو

میسر کر دیا ہیجان ہم نے

ذرا سے پر کھلے تو بے خودی میں

قفس کو کہہ دیا زندان ہم نے

تمہارے ہونٹ کاغذ پر بنا کر

کیا تتلی کو بھی ہلکان ہم نے

نئے شہروں کے چاؤ میں دھڑادھڑ

اجاڑے گاؤں کے کھلیان ہم نے

وسیم اک سر سناں سے کہہ رہا تھا

وفا کو دی نئی پہچان ہم نے


وسیم اکرم جوئیہ

No comments:

Post a Comment