Sunday 19 June 2022

لعل و گہر کہاں ہیں دفینوں سے پوچھ لو

 لعل و گہر کہاں ہیں دفینوں سے پوچھ لو

سینوں میں کافی راز ہیں، سینوں سے پوچھ لو

جھیلا ہے میں نے تین سو پینسٹھ دکھوں کا سال

چاہو تو پچھلے بارہ مہینوں سے پوچھ لو

قبروں کے دکھ سے کم نہیں کچے گھروں کے دکھ

تم زندہ لاشوں یعنی مکینوں سے پوچھ لو

چوتھا گواہ اندھا ہے، حد کس طرح لگے؟

عینی گواہ تین ہیں، تینوں سے پوچھ لو

میں جونہی بوئے بیج، شجر پھوٹنے لگے

مجھ پر یقیں نہیں تو زمینوں سے پوچھ لو

ایک آدھ تو کرے گی ہی اقرار لازماً

دو تین چار پانچ حسینوں سے پوچھ لو

سمجھو گے دل کی رمز مجھی سے مگر ابھی

تم شوق پورا کر لو، ذہینوں سے پوچھ لو

چِھن جائے گھر تو کیسے رُلاتی ہے بے گھری

ٹوٹی انگوٹھیوں کے نگینوں سے پوچھ لو

سچ سچ بتائیں گے وہ تمہیں ڈوبنے کا لطف

دریا کی تہہ میں غرق سفینوں سے پوچھ لو

اپنے گُرو کے طور پہ لیں گے سب ایک نام

تم شہر بھر کے سارے کمینوں سے پوچھ لو

نیچے اترتے وقت اسے موچ آ گئی

آگے کا سارا واقعہ زینوں سے پوچھ لو

پوچھو نہ سجدہ گاہ سے سجدوں کی چاشنی

ہاں پوچھنا ہی ہے تو جبینوں سے پوچھ لو

ڈستے ہیں کس ترنگ میں، پھنکارتے ہیں کیوں

سانپوں کی نفسیات خزینوں سے پوچھ لو

جو بات اہل عرش بھی بتلا نہیں سکے

فارس! وہ بات خاک نشینوں سے پوچھ لو


رحمان فارس

No comments:

Post a Comment