وفا کرنا تھا اک پیمان ہم نے
کیا ہے ذات کا نروان ہم نے
اندھیرے میں جسے جانا ہے جائے
سنا ہے آج پھر اعلان ہم نے
انا کی لاج رکھنا تھا ضروری
جنوں کو کر دیا حیران ہم نے
ہمیں منصب دکھائے جا رہے ہیں
کبھی جو کر دیئے تھے دان ہم نے
تمہارے ہجر سے دل ڈوبتا تھا
مگر پھینکا نہیں سامان ہم نے
اداکاری بھی کی تو دل سے کی ہے
تماشے میں گنوا دی جان ہم نے
کسی کا نام لے کر آنسوؤں کو
میسر کر دیا ہیجان ہم نے
ذرا سے پر کھلے تو بے خودی میں
قفس کو کہہ دیا زندان ہم نے
تمہارے ہونٹ کاغذ پر بنا کر
کیا تتلی کو بھی ہلکان ہم نے
نئے شہروں کے چاؤ میں دھڑادھڑ
اجاڑے گاؤں کے کھلیان ہم نے
وسیم اک سر سناں سے کہہ رہا تھا
وفا کو دی نئی پہچان ہم نے
وسیم اکرم جوئیہ
No comments:
Post a Comment