Saturday 18 June 2022

جمال زادی اسے خبر ہی نہیں کہ کون اس کو چاہتا ہے

 جمال زادی


وہ جس کو دیکھا تو میری بنجر نگاہ میں 

ایک خواب نے ایسے آنکھ کھولی

کہ جیسے صدیوں سے 

زرد جنگل میں کوئی شے سبز ہو گئی ہو

عجیب لڑکی ہے جس کو 

نظم اور غزل کی پہچان ہی نہیں ہے

اسے تو یہ بھی بتانا پڑتا ہے 

شعر دو مصرعوں یعنی سطروں کو جوڑ کر ایک شے ہے 

جس میں کوئی خیال اپنی پوری تفہیم سے بندھا ہے

مگر پریشان اس لیے ہوں

جمال زادی تو بے نیازی کی آخری حد پہ جا کھڑی ہے

اسے خبر ہی نہیں کہ دنیا میں کتنے کم لوگ ہیں 

کہ جن کے جمال پر شاعری ہوئی ہے

اسے خبر ہی نہیں وہ اردو ادب کی 

فینی براؤن بننے کے مرحلے سے گزر رہی ہے

اسے خبر ہی نہیں کہ ہم جب نہیں بھی ہوں گے

تو شاعری ہی ہمارے نقش قدم بنا کر بتائے گی 

کہ یہاں سے کوئی گزر چکا ہے

اسے خبر ہی نہیں کہ کون اس کو چاہتا ہے


احسن سلیمان

No comments:

Post a Comment