جمال زادی
وہ جس کو دیکھا تو میری بنجر نگاہ میں
ایک خواب نے ایسے آنکھ کھولی
کہ جیسے صدیوں سے
زرد جنگل میں کوئی شے سبز ہو گئی ہو
عجیب لڑکی ہے جس کو
نظم اور غزل کی پہچان ہی نہیں ہے
اسے تو یہ بھی بتانا پڑتا ہے
شعر دو مصرعوں یعنی سطروں کو جوڑ کر ایک شے ہے
جس میں کوئی خیال اپنی پوری تفہیم سے بندھا ہے
مگر پریشان اس لیے ہوں
جمال زادی تو بے نیازی کی آخری حد پہ جا کھڑی ہے
اسے خبر ہی نہیں کہ دنیا میں کتنے کم لوگ ہیں
کہ جن کے جمال پر شاعری ہوئی ہے
اسے خبر ہی نہیں وہ اردو ادب کی
فینی براؤن بننے کے مرحلے سے گزر رہی ہے
اسے خبر ہی نہیں کہ ہم جب نہیں بھی ہوں گے
تو شاعری ہی ہمارے نقش قدم بنا کر بتائے گی
کہ یہاں سے کوئی گزر چکا ہے
اسے خبر ہی نہیں کہ کون اس کو چاہتا ہے
احسن سلیمان
No comments:
Post a Comment