میں اپنے خواب خزینوں سے خوب واقف ہوں
تمہارے ساتھ کے لمحوں سے خوب واقف ہوں
کہاں پہ بھٹکے ہوئے دل کو روک لینا ہے
سرابِ عشق کے رستوں سے خوب واقف ہوں
جہاں پہ درج محبت کی داستانیں ہیں
غریب لوگوں کی آنکھوں سے خوب واقف ہوں
ہزار مجھ کو دھکیلو گے خودکشی کی طرف
میں زندگی کے طریقوں سے خوب واقف ہوں
خزاں کے وقت میں کرتا ہوں جو شجر کاری
کہ آنے والی بہاروں سے خوب واقف ہوں
اگر وہ ماریں بھی، چھاؤں میں ڈال آئیں گے
برے نہیں ہیں سب اپنوں سے خوب واقف ہوں
وصال! بنتے ہیں نشتر،۔ کہاں پہ پھاہے وہ
تمام لفظوں کے لہجوں سے خوب واقف ہوں
احمد وصال
No comments:
Post a Comment