Saturday 11 June 2022

دل وحشی کہاں سنبھلتا ہے

 دلِ وحشی کہاں سنبھلتا ہے

اور بھی ہاتھ سے نکلتا ہے

کمسنی میں یہ عشق کے سودے

جاں پگھلتی ہے، دل پگھلتا ہے

اس کا دامن ابھی چھوا بھی نہیں

ہاتھ میرا، ابھی سے جلتا ہے

محورِ عشق ہے وہی عاشق

جس کا چاہت میں دم نکلتا ہے

تِرے پہلو میں جا کے دم لے گا

دل دھڑکتا نہیں ہے، چلتا ہے

روشنی سے، ہوا، نہ پانی سے

عشق تو بس لہو سے پلتا ہے

ہم چلے تھے نشانِ عبرت ہیں

دل کی منشا پہ کون چلتا یے


سامی اعجاز

No comments:

Post a Comment