Saturday 11 June 2022

سخن جو اس نے کہے تھے گرہ سے باندھ لیے

 سخن جو اس نے کہے تھے گرہ سے باندھ لیے

خیال اسی کے تھے سو سو طرح سے باندھ لیے

وہ بن سنور کے نکلتی تو چھیڑتی تھی صبا

پھر اس نے بال ہی اپنے صبا سے باندھ لیے

ملے بغیر وہ ہم سے بچھڑ نہ جائے کہیں

یہ وسوسے بھی دلِ مبتلا سے باندھ لیے

ہمارے دل کا چلن بھی تو کوئی ٹھیک نہیں

کہاں کے عہد کہاں کی فضا سے باندھ لیے

وہ اب کسی بھی وسیلے سے ہم کو مل جائے

سو ہم نے اپنے ارادے دعا سے باندھ لیے

میں اک تھکا ہوا انسان اور کیا کرتا

طرح طرح کے تصور خدا سے باندھ لیے


فاضل جمیلی

No comments:

Post a Comment