Thursday 16 June 2022

تو جو کب سے دل میں ہے جا گزیں

 تو جو کب سے دل میں ہے جا گزیں میری دھڑکنوں کا حساب کر

تو جو کب سے بیٹھا ہے آنکھ میں کوئی روشنی میرا خواب کر

میں جو سر بہ سر کسی گم شدہ سی صدا کا عذاب ہوں

میری تار زخم تلاش لے، مجھے شام غم کا رباب کر

بڑی بے امان ہے زندگی، اسے بن کے کوئی پناہ مل

کوئی چاند رکھ میری شام پر، میری شب کو مہکا گلاب کر

کوئی بد گمان سا وقت ہے کوئی بد مزاج سی دھوپ ہے

کسی سایہ دار سے لفظ کو میرے جلتے دل کا حجاب کر

کبھی دیکھ لے میری چاہ کو کبھی آ نکل میری راہ کو

کہیں دو قدم میرے ساتھ چل کے مجھے بھی عالی جناب کر

تو جو کب سے دل میں ہے جا گزیں میری دھڑکنوں کا حساب کر

تو جو کب سے بیٹھا ہے آنکھ میں کوئی روشنی میرا خواب کر


عاصم ثقلین

No comments:

Post a Comment