Thursday 16 June 2022

سلیقے سے اگر توڑیں تو کانٹے ٹوٹ جاتے ہے

 سلیقے سے اگر توڑیں تو کانٹے ٹوٹ جاتے ہے

مگر افسوس یہ ہے پھول پہلے ٹوٹ جاتے ہے

محبت بوجھ بن کر ہی بھلے رہتی ہو کاندھوں پر

مگر یہ بوجھ ہٹتا ہے تو کاندھے ٹوٹ جاتے ہیں

بچھڑ کر آپ سے یہ تجربہ ہو ہی گیا آخر

میں اکثر سوچتا تھا لوگ کیسے ٹوٹ جاتے ہے

مِری اوقات ہی کیا ہے میں اک ننھا سا آنسو ہوں

بلندی سے تو گر کر اچھے اچھے ٹوٹ جاتے ہیں

بہت دن مصلحت کی قید میں رہتے نہیں جذبے

محبت جب صدا دیتی ہے پنجرے ٹوٹ جاتے ہیں

زیادہ کامیابی بھی بہت نقصان دیتی ہے

پھلوں کا بوجھ بڑھنے سے بھی پودے ٹوٹ جاتے ہے

ستم یہ ہے میں اس رستے پہ ننگے پیر چلتا ہوں

جہاں چلتے ہوئے لوگوں کے جوتے ٹوٹ جاتے ہے


وسیم نادر

No comments:

Post a Comment