Tuesday 21 June 2022

خود کو تری نظروں میں گرانا تو نہیں ہے

خود کو تری نظروں میں گرانا تو نہیں ہے

رکھنا ہے تجھے یاد، بُھلانا تو نہیں ہے

کھینچا ہے محبت سے تِرے شہر کا نقشہ

حالانکہ یہ چاہت کا زمانہ تو نہیں ہے

پلکوں پہ بٹھایا ہے جسے پیار دیا ہے

اس نے مجھے پہلو میں بٹھانا تو نہیں ہے

کانٹوں نے بنانا ہے سفر اور بھی مشکل

کانٹوں نے مِرا ساتھ نبھانا تو نہیں ہے

آیا نہیں ملنے کو وہ ناساز طبیعت

اب دیکھنا یہ ہے کہ بہانا تو نہیں ہے

جا کر اسے روکو کہ نہ آئے مِری جانب

آنے کا ارادہ ہے، روانہ تو نہیں ہے

رونق ہیں تِرے گھر کی یہ معصوم فرشتے

دینا ہے انہیں پیار، رُلانا تو نہیں ہے

ممکن ہے کسی روز اسے چھوڑ دوں دانش

دنیا میں پڑاؤ ہے، ٹھکانا تو نہیں ہے


جاوید دانش

No comments:

Post a Comment