میرے پہلو میں ہے وہ رشک قمر آج کی رات
جا کے غیروں میں رہے درد جگر آج کی رات
نیند کا وصل میں ہو گا نہ گزر آج کی رات
رتجگا آ کے کرے گی مرے گھر آج کی رات
کس کے گھر جائے گا وہ رشک قمر آج کی رات
چاند نکلے گا خدا جانے کدھر آج کی رات
یہ شب وصل شب ہجر سے یا رب بڑھ جائے
روز فردا کی کبھی ہو نہ سحر آج کی رات
زلف کی آڑ میں دل لے اڑی شوخئ نگاہ
پا گئی ڈھونڈھتی تھی جس کو نظر آج کی رات
کٹنے والی نظر آتی نہیں یہ ہجر کی شب
ہو نہیں سکتی کسی طرح بسر آج کی رات
نہ کسی سمت سے آواز اذاں آتی ہے
بولتا ہے نہ کہیں مرغ سحر آج کی رات
رخصت اے زیست کہ شام شب غم آتی ہے
اپنا اس دار فنا سے ہے سفر آج کی رات
زندگانی کا نتیجہ ہے یہی مدت وصل
حاصل عمر ہیں یہ چار پہر آج کی رات
شہیر مچھلی شہری
No comments:
Post a Comment