Tuesday, 21 June 2022

میرے پہلو میں ہے وہ رشک قمر آج کی رات

 میرے پہلو میں ہے وہ رشک قمر آج کی رات

جا کے غیروں میں رہے درد جگر آج کی رات

نیند کا وصل میں ہو گا نہ گزر آج کی رات

رتجگا آ کے کرے گی مرے گھر آج کی رات

کس کے گھر جائے گا وہ رشک قمر آج کی رات

چاند نکلے گا خدا جانے کدھر آج کی رات

یہ شب وصل شب ہجر سے یا رب بڑھ جائے

روز فردا کی کبھی ہو نہ سحر آج کی رات

زلف کی آڑ میں دل لے اڑی شوخئ نگاہ

پا گئی ڈھونڈھتی تھی جس کو نظر آج کی رات

کٹنے والی نظر آتی نہیں یہ ہجر کی شب

ہو نہیں سکتی کسی طرح بسر آج کی رات

نہ کسی سمت سے آواز اذاں آتی ہے

بولتا ہے نہ کہیں مرغ سحر آج کی رات

رخصت اے زیست کہ شام شب غم آتی ہے

اپنا اس دار فنا سے ہے سفر آج کی رات

زندگانی کا نتیجہ ہے یہی مدت وصل

حاصل عمر ہیں یہ چار پہر آج کی رات


شہیر مچھلی شہری

No comments:

Post a Comment