دماغوں سے ابھی تک سوچ تاتاری نہیں نکلی
مہذب ہو کے بھی اندر کی خونخواری نہیں نکلی
بدل ڈالے سبھی قانون اک اک کر کے جنگل کے
شفا تو مل گئی پر جڑ سے بیاری نہیں نکلی
شہنشاہییں تو ہو گئیں دربار سے باہر
مگر درباریوں کی خوئے درباری نہیں نکلی
شعوری طور پر انسانیت تو آ گئی لیکن
عقوبت خانۂ دل سے دلآزاری نہیں نکلی
گدھے کو باپ تک بھی کہہ دیا اہل تصرف نے
مگر اندر سے انسانوں کے خرکاری نہیں نکلی
بہت ضربیں لگائیں ہر بت نفرت کو نفرت کی
مگر ان میں کوئی اک ضرب بھی کاری نہیں نکلی
نکالا تو بہت کچھ ہم نے پچھلی ساٹھ صدیوں میں
نہیں نکلی تو عیاری و مکاری نہیں نکلی
اگرچہ مانتے ہیں سب گلوبل گاؤں دنیا کو
مگر نقشے سے اب بھی چار دیواری نہیں نکلی
دیار غرب والو! لاٹری امن و محبت کی
تمہاری بھی نہیں نکلی ہماری بھی نہیں نکلی
انعام الحق جاوید
No comments:
Post a Comment