Monday 13 June 2022

دماغوں سے ابھی تک سوچ تاتاری نہیں نکلی

 دماغوں سے ابھی تک سوچ تاتاری نہیں نکلی 

مہذب ہو کے بھی اندر کی خونخواری نہیں نکلی

بدل ڈالے سبھی قانون اک اک کر کے جنگل کے 

شفا تو مل گئی پر جڑ سے بیاری نہیں نکلی 

شہنشاہییں تو ہو گئیں دربار سے باہر 

مگر درباریوں کی خوئے درباری نہیں نکلی

شعوری طور پر انسانیت تو آ گئی لیکن 

عقوبت خانۂ دل سے دلآزاری نہیں نکلی 

گدھے کو باپ تک بھی کہہ دیا اہل تصرف نے 

مگر اندر سے انسانوں کے خرکاری نہیں نکلی 

بہت ضربیں لگائیں ہر بت نفرت کو نفرت کی 

مگر ان میں کوئی اک ضرب بھی کاری نہیں نکلی

نکالا تو بہت کچھ ہم نے پچھلی ساٹھ صدیوں میں 

نہیں نکلی تو عیاری و مکاری نہیں نکلی

اگرچہ مانتے ہیں سب گلوبل گاؤں دنیا کو 

مگر نقشے سے اب بھی چار دیواری نہیں نکلی 

دیار غرب والو! لاٹری امن و محبت کی 

تمہاری بھی نہیں نکلی ہماری بھی نہیں نکلی


انعام الحق جاوید

No comments:

Post a Comment