مشاہدہ رات کے پچھلے پہر بندے کا ذاتی ہے
گھڑی دیوار پر لٹکی ہوئی کچھ گنگناتی ہے
تمہارے سرخ ہونٹوں پر تبسم پُر تکلف ہے
ہمارے درمیاں قُربت کا لمحہ حادثاتی ہے
میں کتنی دیر تک ماتھا رگڑ سکتا ہوں اینٹوں پر
مجھے کمرے کی ہر دیوار شب بھر آزماتی ہے
مِرا اپنی گلی سے یوں گزرنا حادثہ سمجھو
وہ کھڑکی سے تِرا آواز دینا معجزاتی ہے
تمہاری زلف کے خم سے لہو رنگ سرخ پٹڑی تک
سفر نامے کا ہر حصہ یقیناً معلوماتی ہے
جسے آمین کہنے پر محبت مل بھی سکتی تھی
اسے حرفِ دعا کے بعد خاموشی ستاتی ہے
عمران راہب
No comments:
Post a Comment