Monday 13 June 2022

کبھی باہر نہیں آتی سدا پردے میں رہتی ہے

 کبھی باہر نہیں آتی، سدا پردے میں رہتی ہے

خدا جانے تمنّا کس کے بہکاوے میں رہتی ہے

تمہارا ساتھ میری زندگی بھر کی کمائی تھی

گئے ہو جب سے تم یہ زندگی گھاٹے میں رہتی ہے

کماں سے تیر چھوٹے تو کبھی واپس نہیں آتا

مگر اس کو غلط فہمی میرے بارے میں رہتی ہے

جسے ہم لوگ مل کر آشرم میں چھوڑ آئے تھے

وہ چرخہ کاتتی ہے چاند کے چہرے میں رہتی ہے

اسے ہم پر تو دیتے ہیں، مگر اڑنے نہیں دیتے

ہماری بیٹی بلبل ہے، مگر پنجرے میں رہتی ہے

وہ جب تک لوٹ کر سکول سے گھر آ نہیں جاتا

ہماری جان اٹکی ہر گھڑی بیٹے میں رہتی ہے

ٹھہرنے ہی نہیں دیتی ہیں گھر میں شہر کی خبریں

ذرا باہر نکلتے ہیں تو جاں خطرے میں رہتی ہے


رحمان مصور

No comments:

Post a Comment