Monday 13 June 2022

جنبش ابروئے قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی

 جنبش ابروئے قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی

بلبل‌ جاں مِری بسمل کبھی ایسی تو نہ تھی

وعدۂ وصل کیا کس نے دیا دم کس نے

بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی

اے شہ حسن رقیب آپ کا قادر نکلا

فوج عشاق کی بیدل کبھی ایسی تو نہ تھی

مہرباں آئے کدھر آج کدھر نکلا چاند

رشک افلاک یہ محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

وہ مہ نو مگر آیا کسی مہتابی پر

چاندنی اے مہ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی

اپنے کاشانے سے کیوں غیر کے گھر ہو آئے

ماہ رو آپ کی منزل کبھی ایسی تو نہ تھی

کس طرح وصل ہوا اس گل زیبا سے نسیمؔ

خوش نصیبی مجھے حاصل کبھی ایسی تو نہ تھی


نسیم میسوری

No comments:

Post a Comment