Monday 13 June 2022

ہر بات جو نہ ہونا تھی ایسی ہوئی کہ بس

 ہر بات جو نہ ہونا تھی ایسی ہوئی کہ بس

کچھ اور چاہئے تجھے اے زندگی کہ بس

جو دن نہیں گزرنا تھے وہ بھی گزر گئے

دنیا ہے ہم ہیں اور ہے وہ بے بسی کہ بس

جن پر نثار نقد سکوں، نقد جاں کیا

ان سے ملے تو ایسی ندامت ہوئی کہ بس

میں جس کو دیکھتا تھا اچٹتی نگاہ سے

ان کی نگاہ مجھ پہ کچھ ایسی پڑی کہ بس

منزل سمجھ کے دار پہ میں تو نہ رک سکا

خود مجھ سے میری زندگی کہتی رہی کہ بس

وہ مسئلے حیات کے جو مسئلے نہیں

ان مسئلوں سے الجھا ہے یوں آدمی کہ بس

پہنچا جہاں بھی لوگ یہ کہتے ہوئے ملے

تہذیب اپنے شہر کی ایسی مٹی کہ بس

دنیا غریب جان کے ہنستی تھی میر پر

اقبال مجھ پہ ایسے یہ دنیا ہنسی کہ بس


اقبال عمر

No comments:

Post a Comment