Sunday 19 June 2022

زندہ ضمیروں کا سودا نہیں ہوتا

 زندہ ضمیروں کا، سودا نہیں ہوتا

جو بِک رہا ہو وہ، زندہ نہیں ہوتا

جرأت نمو کی ہی، پرواں چڑھاتی ہے

جو بیج بزدل ہو، پودا نہیں ہوتا

کردار فیصد میں، ناپا نہیں جاتا

کردار یا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

سلطان اور قائد میں فرق یہ بھی ہے

سچی قیادت کا، بچہ نہیں ہوتا

حق چھیننا سیکھو، تم بھیک مت مانگو

حق پر مَرے جو بھی، مُردہ نہیں ہوتا

تقدیر پر کوشش کی شرط لاگو ہے

تقدیر کا لکھا، لکھا نہیں ہوتا

ہم کو محبت ہے، کچھ قیس سے ورنہ

ہر شعر شاعر کا، اچھا نہیں ہوتا


شہزاد قیس

No comments:

Post a Comment