Saturday 18 June 2022

ظلم ہے قہر ہے قیامت ہے

 ظلم ہے، قہر ہے، قیامت ہے

عشق کی آج پھر، امامت ہے

کرب کا لمحہ ہے بہت بھاری

لوٹ کر آؤ تو، عنایت ہے

زندگی آج ہے بنی مشکل

کھوٹ ہے، زہر ہے، ملاوٹ ہے

سوچ میں درد ہے ملا ميری

جاگ یوں چلی اب بغاوت ہے

ندی کے پار پھر چلے آنا

آج تو مُکر گر، محبت ہے

منع ہے باغ کی جو آرائش

قرض اب گلوں پر لطافت ہے

پھول ہر گام ہیں کھلے امبر

حسن بھی شہر کا سلامت ہے


شہباز امبر رانجھا

No comments:

Post a Comment