Saturday 18 June 2022

قہقہوں بھرا رکشہ مرسڈیز ہے خاموش

 ڈیڑھ تال


قہقہوں بھرا رکشہ

مرسیڈیز ہے خاموش

ایک رنج بنگلے کا

جھونپڑی سے نادم ہے

ایک نیند حوا کی

جس پہ آدمی حیران

پہلی گالی بچے کی

جس پہ ہو ادب قربان

فائلو! ارے مِری نظم

سر! وہ بات تو سنئیے

سر میں، اچھّ، آتا ہوں

نظم مر گئی میری

یار کال کر لوں میں

ہاں ابھی میں فارغ ہوں

ٹھیک ہاں کہو کیا تھا

کچھ نہیں یونہی یوں ہی

صرف تم کو سننا تھا

بس، عجیب پاگل ہو

کیا ہے یہ

فقط اک نظم

پیشکش ہوا جیسی

سانس کی طرح مصرعے

ڈر نہ ہو کسی کا بھی

جیسے، جس طرح، جو بھی

کون، ناقد و تنقید

بھاڑ میں گئے سارے

شاعری کرو پیارے


علی زریون

No comments:

Post a Comment