ڈیڑھ تال
قہقہوں بھرا رکشہ
مرسیڈیز ہے خاموش
ایک رنج بنگلے کا
جھونپڑی سے نادم ہے
ایک نیند حوا کی
جس پہ آدمی حیران
پہلی گالی بچے کی
جس پہ ہو ادب قربان
فائلو! ارے مِری نظم
سر! وہ بات تو سنئیے
سر میں، اچھّ، آتا ہوں
نظم مر گئی میری
یار کال کر لوں میں
ہاں ابھی میں فارغ ہوں
ٹھیک ہاں کہو کیا تھا
کچھ نہیں یونہی یوں ہی
صرف تم کو سننا تھا
بس، عجیب پاگل ہو
کیا ہے یہ
فقط اک نظم
پیشکش ہوا جیسی
سانس کی طرح مصرعے
ڈر نہ ہو کسی کا بھی
جیسے، جس طرح، جو بھی
کون، ناقد و تنقید
بھاڑ میں گئے سارے
شاعری کرو پیارے
علی زریون
No comments:
Post a Comment