غم نہیں غیر کی ریائی کا
دکھ ہے اپنوں کی بے وفائی کا
عرشِ دل میں بسا لیا ان کو
ڈر نہیں اب مجھے جدائی کا
دل لگانے سے قبل سوچنا تھا
فائدہ کیا ہے اب دُہائی کا
چاند تاروں کو مات دیتا ہے
کنگن اس کی حسیں کلائی کا
درمیاں سے جو ہٹ گیا پردہ
مٹ گیا شوق خود نمائی کا
خامشی گفتگو سے بہتر ہے
چھوڑ اب قصہ نارسائی کا
کاٹ کر بال و پر مِرے، صیاد
اذن دیتا ہے اب رہائی کا
بات سادہ سی تھی بگڑ کر جو
بن گئی ہے پہاڑ رائی کا
ایک میں پر ہوا تمام نصر
رشتہ جنموں کی آشنائی کا
ذیشان نصر
No comments:
Post a Comment