Thursday 16 June 2022

سبب تو کچھ بھی نہیں اور اداس رہتا ہے

 سبب تو کچھ بھی نہیں اور اداس رہتا ہے

یہ کیسا درد ہے جو دل کے پاس رہتا ہے

مجھے پتا نہیں اس کا مگر یہ سنتا ہوں

وہ ان دنوں مِرے گھر کے ہی پاس رہتا ہے

مِری کتاب کے اوراق سب تمہارے ہیں

جہاں سے دیکھو تِرا اقتباس رہتا ہے

میں کاٹتا ہوں ہر ایک لمحہ کربلا کی طرح

لبوں پہ پیاس تو دل میں ہراس رہتا ہے

میں کل تلک جسے اک آنکھ بھی یہ بھاتا تھا

اسی کے دل میں مِرا اب نواس رہتا ہے

نسیم! نام کے اس آدمی سے ملنا تم

نجانے ہر گھڑی کیوں بد حواس رہتا ہے


نسیم احمد

No comments:

Post a Comment