اکتارے والا بنجارا
رخصت
اے ہوائے یخ بستہ
پھاگن کی ہوا گاتی ہوئی
پر کھول کے جاگی انگڑائی
باغوں میں آم کی شاخوں پر
پھر من للچاتے بور لگے
بچپن کو شرارت پھر سوجھی
سردی سے ٹھٹھری گٹھڑی سی
کمبخت خطائیں پھر سنکیں
کوئل منقار میں کوک لیے
خوشبو کی جسامت ڈھونڈ رہی
پاگل پن کی تصویر ہوئی
پھر من جنگل میں
مور نے رقص کو دعوت دی
سکڑی سمٹی شریانوں میں
پھر موجیں ہلوریں لینے لگیں
پھر لمس ہوا نے دہکائی
مٹی میں نمو کی چنگاری
لیکن جاناں
یہ ہریالی
کیوں گاؤں سے شہر نہیں آتی
من گلیارے میں نہیں گاتا
اکتارے والا بنجارا
انور شمیم
No comments:
Post a Comment