زندگی لاش بنی پھرتی ہے
آرزو بین کیے جاتی ہے
ابر ایسے ہیں نگاہوں میں، برستے ہیں تو تھمتے ہی نہیں
حسرتوں کا کوئی ماتم ہے کہ ٹلتا ہی نہیں
یہ اُداسی ہے جو آتی ہے تو جاتی ہی نہیں
کون سی رُت ہے کوئی نام نہیں ہے اس کا
ایک لاچار سی بیوہ ہے کوئی سنتا نہیں ہے جس کی
ایسے حسرت کوئی بیٹھی ہے کسی درد کی چادر اوڑھے
درد بھی صدیوں پرانا کہ جسے دیکھتے ہی درد جنم لینے لگیں اور نئے
اور اس کربِ مسلسل میں تری یاد دلاسہ جو کہیں دے جائے
چند لمحوں کے لیے آنکھ لگا لیتے ہیں
حسرتیں پھر بھی نہیں سو پاتیں
نیند بالکل نہیں آتی ان کو
تم کہاں چین سے سوئے ہوئے رہتے ہو مرے ہجر زدہ
زین شکیل
No comments:
Post a Comment