Friday 17 June 2022

خواب میں ہاتھ چھڑاتی ہوئی تقدیر کا دکھ

 خواب میں ہاتھ چُھڑاتی ہوئی تقدیر کا دُکھ

آنکھ سے لِپٹا ہے اب تک اسی تعبیر کا دکھ

کوششیں کر کے بہرحال مصور ہارا

شوخ رنگوں میں چھپا ہی نہیں تصویر کا دکھ

اس کی آنکھوں میں نمی ختم نہیں ہو سکتی

پڑھ لیا جس نے بھی ہنستی ہوئی تحریر کا دکھ

قید خانے میں یہی سوچ کے واپس آیا

مجھ کو معلوم ہے تنہا پڑی زنجیر کا دکھ

محفل شعر و سخن یوں ہی رہے باغ و بہار

نسل در نسل چلے میر تقی میر کا دکھ

ہاتھ کٹ جانے پہ شاید نہیں ہوتا نادر

جو مِرے دل کو ہے ٹوٹی ہوئی شمشیر کا دکھ


وسیم نادر

No comments:

Post a Comment