Friday 17 June 2022

کہانی ختم ہوتے ہی کہانی ختم بس سمجھو

رقص

کہانی ختم ہوتی ہے

کہانی ختم ہوتے ہی کہانی ختم بس سمجھو

زمیں اک فرشِ مقتل ہے

جہاں زادوں کو ہر صورت 

یہاں پر رقص کرنا ہے

تماشا سج چکا کب کا

تماشا بیں، نظر کی پُتلیاں مٹکا رہے ہیں

وہ سب حیرت کو حسرت میں 

بدلتا دیکھنے کے منتظر ہیں

بدن کوڑا برسنے سے اُدھڑ کر 

پھول بن جائے تو خوشبو رقص کرتی 

ہر طرف محسوس ہوتی ہے

بڑھے گا شور اب رقاص کی اندام و حرکت پر

بدن جھومے گا تو 

آنکھیں طرب سے پھیل جائیں گی

ادائیں، عُشوہ ہائے دلبری غمزوں کی پُرکاری

لہو میں جھلملاتی مُشتعل خواہش کی انگیاری

کہ رادھا رقص کرتی ہے

مگر سہمی تھکی ہاری

ادھر چشم ہوس پر رقص کرتی ساحرہ کا

وار کاری ہے

لچکتا جسم جب جب بے خودی میں تھرتھراتا ہے

تماشا بین کا ضبط و اجارہ ٹوٹ جاتا ہے

بہر سو داد کی تکثیر جس دم پھیل جاتی ہے

تھکی ہاری لرزتی لعبتِ جاں تھرتھراتی ہے

زمیں پر بِسمل بے کل لرزتا، ڈھیر زخموں کا

لہو تازہ زمیں پر اور ہوا میں باس پھولوں کی

تماشائی، تماشا، فرش مقتل منتظر ہیں کہ

نیا گلزار نو رستا بدن بسمل کا حاضر ہو

کھلونے لعبتیں عشرت کدے دائم رہیں آباد

کہانی ختم ہو گی اور آ جائے گی دنیا زاد

زمیں پھولوں کی فصلیں کیا اسی کارن اُگاتی ہے

کہ مالن ڈالیاں لے کر در مقتل پہ دھر آئے


انور زاہد

No comments:

Post a Comment