Friday 17 June 2022

ہتھیلیاں تو ملی ہیں دعا علیحدہ ہے

 ہتھیلیاں تو ملی ہیں دعا علیحدہ ہے

وہ کس مقام پہ آ کر ہوا علیحدہ ہے

ہیں سرد ہاتھ، جبیں پر مگر پسینہ ہے

مقام ایک ہے، آب و ہوا علیحدہ ہے

گو ہمسفر تھے مگر جب کسی نے پوچھا تو.

وہ مجھ کو دیکھ کے کہتا رہا،علیحدہ ہے 

وہ جا رہا تھا میں نعلین بھول کر بھاگا

ہوئی نہ میرے دہن سے صدا، علیحدہ ہے

شعوری بات ہے یہ لاشعور لمحوں کی

ہمارا نام کسی نے لکھا،علیحدہ ہے

ہے ہجر درد تو قربت بھی درد ہے مالک

مرض ہے ایک تو پھر کیوں دوا،علیحدہ ہے

غریب لوگو کا اللہ غریب ہے شاید

تبھی امیرؤں کی نسبت عطا، علیحدہ ہے

مِری کلائی پہ پنسل سے جو بنائی گئی

گھڑی وہ چلتی ہے، یہ ماجراعلیحدہ ہے

وہ یاد آنے کی کوشش میں مجھ کو بھول گیا

"نہ یاد کرنا مجھے"یہ سزا علیحدہ ہے

میں تیرے کرب کی یکسانیت سے خائف ہوں

بدلتی رُت کا سنا ہے مزا علیحدہ ہے

میں اپنی مرضی سے اندھےدنوں میں زندہ ہوں

میں مطمئن ہوں مِرا مدعاعلیحدہ ہے

خدا کو بانٹنے والوں کا عہد ہے کاظم

ہر اک بشر کا یہاں پر خدا علیحدہ ہے


کاظم حسین

No comments:

Post a Comment