چراغ جل بھی رہا ہے ہوا کا ڈر بھی ہے
مِری دعاؤں پہ لیکن تِری نظر بھی ہے
گھروں کو پُھونکنے والے ذرا یہ دیکھ بھی لے
اسی گلی میں سُنا ہے کہ تیرا گھر بھی ہے
میں گھر سے نکلوں تو بے خوف ہو نکلتا ہوں
کہ میری ماں کی دعا میری ہمسفر بھی ہے
ابھی سے فتنۂ دنیا سے ڈر گئے یارو
ابھی تو فتنۂ افلاک کی خبر بھی ہے
اسی کے پیار سے روشن ہے زندگی میری
اسی کے پیار سے لیکن بہت سا ڈر بھی ہے
ندیم! آس میں بیٹھے کہ پھر سے جی اٹھیں
کہ اس کے ہاتھ میں سنتے ہیں یہ ہنر بھی ہے
عبداللہ ندیم
No comments:
Post a Comment