Monday, 20 June 2022

کشتیاں اس کی بادباں اس کا

کشتیاں اُس کی بادباں اُس کا

ہے ہواؤں کو امتحاں اس کا

وہ جو لمحہ ابھی نہیں آیا

وصل میں خوف درمیاں اس کا

وہ پرندہ ہے، لوٹ آئے گا

اس زمیں پر ہے آشیاں اس کا

وہ مِری طرح سوچ کر دیکھے

میری تنہائی ہے زیاں اس کا

قریۂ جاں مہک مہک اُٹھا

کیا تصوّر ہے گُل فشاں اس کا

ایک اک حرف ہے مِری تخلیق

نام ہے زیبِ داستاں اس کا


اسلم بیگ مرزا

No comments:

Post a Comment