تم جس دن چھوڑ کر گئی تھی
اس دن کے بعد
میں کسی بھی حادثے پر حیران نہیں ہوتا
مجھے زہر اور تمہارا ذائقہ ایک جیسا لگتا ہے
پھر بھی میں گزشتہ گیارہ سال سے سانس لے رہا ہوں
اور لوگوں کو دانت دکھا کر
اپنی وحشت چھپا رہا ہوں
جو تم مجھ میں چھوڑ کر گئی تھی
میں تم سے محبت اور نفرت کے مسئلے میں
متضاد ہوتے ہوئے بھی
آج بھی گاؤں سے چار بجے گزرنے والی
بس کا انتظار کرتا ہوں
اس گھنے پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ کر
سر سامونڈی بھی گاتا رہتا ہوں
جس کے لیے تم کہتی تھی ہو بہو تم جیسا ہے
میں اتنا احسان فراموش بھی نہیں ہوں
کے اس بڑھیا کی موت پر دو آنسو بھی نہ بہاؤں
جو ہمارے گناہوں کو چھپانے کے لیے
ہمیں پناہ دیتی تھی
اب تو میں شاعری بھی نہیں کرتا
آج نظم لکھنے کی وجہ فقط اپنا دکھ
تم تک پہچانا تھا
کہ ہم نے پہلی دفعہ
جس گھر میں سنجوگ کیا تھا
وہ رات اب تیز بارش میں گر گیا ہے
اسلم ہالیپوٹو
No comments:
Post a Comment