Monday 20 June 2022

تم جس دن چھوڑ کر گئی تھی

 تم جس دن چھوڑ کر گئی تھی 

اس دن کے بعد

میں کسی بھی حادثے پر حیران نہیں ہوتا

مجھے زہر اور تمہارا ذائقہ ایک جیسا لگتا ہے

پھر بھی میں گزشتہ گیارہ سال سے سانس لے رہا ہوں

اور لوگوں کو دانت دکھا کر 

اپنی وحشت چھپا رہا ہوں 

جو تم مجھ میں چھوڑ کر گئی تھی

میں تم سے محبت اور نفرت کے مسئلے میں 

متضاد ہوتے ہوئے بھی

آج بھی گاؤں سے چار بجے گزرنے والی 

بس کا انتظار کرتا ہوں

اس گھنے پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ کر 

سر سامونڈی بھی گاتا رہتا ہوں 

جس کے لیے تم کہتی تھی ہو بہو تم جیسا ہے

میں اتنا احسان فراموش بھی نہیں ہوں 

کے اس بڑھیا کی موت پر دو آنسو بھی نہ بہاؤں 

جو ہمارے گناہوں کو چھپانے کے لیے 

ہمیں پناہ دیتی تھی

اب تو میں شاعری بھی نہیں کرتا 

آج نظم لکھنے کی وجہ فقط اپنا دکھ

تم تک پہچانا تھا

کہ ہم نے  پہلی دفعہ 

جس گھر میں سنجوگ کیا تھا 

وہ رات اب تیز بارش میں گر گیا ہے


اسلم ہالیپوٹو

No comments:

Post a Comment