حبس کی رت جو ہر منظر پہ طاری ہے
موسم گل بھی آنے سے انکاری ہے
اس سے اچھے پتھر ہوں گے دنیا میں
وہ انسان ہے اور احساس سے عاری ہے
دم گھٹتا ہے جسم کی اس زندانی میں
بس اک سانس کی رو سینے میں جاری ہے
کاٹ رہی ہے ریشہ ریشہ خوابوں کو
نیند بھی یوں لگتا ہے جیسے آری ہے
دھڑکن سے پوچھو کیسی ویرانی ہے
دل سے پوچھو کیسی دلآزاری ہے
بھوک کو حاضر ناظر جان کے کہتی ہوں
اک روٹی کی خوشبو عشق پہ بھاری ہے
اکثر کومل مجھ سے ملنے آتا ہے
درد سے میری دور کی رشتے داری ہے
کومل جوئیہ
No comments:
Post a Comment