Sunday 19 June 2022

حبس کی رت جو ہر منظر پہ طاری ہے

 حبس کی رت جو ہر منظر پہ طاری ہے

موسم گل بھی آنے سے انکاری ہے

اس سے اچھے پتھر ہوں گے دنیا میں

وہ انسان ہے اور احساس سے عاری ہے

دم گھٹتا ہے جسم کی اس زندانی میں

بس اک سانس کی رو سینے میں جاری ہے

کاٹ رہی ہے ریشہ ریشہ خوابوں کو

نیند بھی یوں لگتا ہے جیسے آری ہے

دھڑکن سے پوچھو کیسی ویرانی ہے

دل سے پوچھو کیسی دلآزاری ہے

بھوک کو حاضر ناظر جان کے کہتی ہوں

اک روٹی کی خوشبو عشق پہ بھاری ہے

اکثر کومل مجھ سے ملنے آتا ہے

درد سے میری دور کی رشتے داری ہے


کومل جوئیہ

No comments:

Post a Comment