Monday 20 June 2022

مجھ کو تا عمر تڑپنے کی سزا ہی دینا

مجھ کو تا عمر تڑپنے کی سزا ہی دینا

تجھ کو منظور اگر ہو تو بُھلا ہی دینا

اے غمِ ہجر وہ تہمت جو لگائے مجھ پر

میری بے لوث محبت کی گواہی دینا

یہ الگ بات کہ ہو جاؤں محبت میں تباہ

تو نہ مجھ کو کبھی احساس تباہی دینا

وہ جو مجبور کریں شرح‌ غمِ فرقت کو

اشک آمیز نگاہوں سے سنا ہی دینا

ان کے دامن کو مہ و مہر سے کرنا معمور

میرے حصے میں جہاں بھر کی سیاہی دینا

وہ جواں کے کہیں فتنۂ دوراں نہ بنے

حسن کو فطرتِ معشوق نگاہی دینا

آج بھی یاد ہے اے دوست!عنایت تیری

وہ تِرا اتنا ہنسانا کہ رُلا ہی دینا

میرے ہر شعر میں روداد ستم ہے ان کی

اے ظفر! میری غزل ان کو سنا ہی دینا


ظفر انصاری

No comments:

Post a Comment