پھر اسے بے حس کہا گیا
وہ خاموش تھی کہ بھرم نہ ٹوٹے کسی کا
وہ خاموش تھی کہ اسے دوسروں کی خوشی عزیز تھی
وہ خاموش تھی کہ تربیت کا بوجھ تھا کاندھوں پر
وہ خاموش تھی کہ حد سے تجاوز پہ ڈرتی تھی
وہ خاموش تھی کہ راستے نازک بہت تھے
وہ خاموش تھی کہ اس کی خوشیاں پرائی تھیں
وہ خاموش تھی کہ سب اندر دبائے رو رہی تھی
اور پھر اسے "بے حس" کہا گیا
آمنہ یزدانی
No comments:
Post a Comment