لاکھ ہنس بول لیں ہم پھر بھی گلہ رہتا ہے
کوئی موسم ہو مگر زخم ہرا رہتا ہے
کچھ طبیعت کو ہے افسردہ دلی سے نسبت
اور کچھ رنج بھی اب دل کو سوا رہتا ہے
"کی مِرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ"
اب مِرے حق میں وہ مصروف دعا رہتا ہے
کس طرح خلوت دل میں ہوا اوروں کا گزر
لوگ کہتے ہیں کہ اس گھر میں خدا رہتا ہے
دھوپ بھی چاہیے پانی بھی ہوا بھی ورنہ
بیج مٹی میں دبا ہو تو دبا رہتا ہے
رشید افروز
No comments:
Post a Comment