Monday, 20 June 2022

لاکھ ہنس بول لیں ہم پھر بھی گلہ رہتا ہے

لاکھ ہنس بول لیں ہم پھر بھی گلہ رہتا ہے

کوئی موسم ہو مگر زخم ہرا رہتا ہے

کچھ طبیعت کو ہے افسردہ دلی سے نسبت

اور کچھ رنج بھی اب دل کو سوا رہتا ہے

"کی مِرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ"

اب مِرے حق میں وہ مصروف دعا رہتا ہے

کس طرح خلوت دل میں ہوا اوروں کا گزر

لوگ کہتے ہیں کہ اس گھر میں خدا رہتا ہے

دھوپ بھی چاہیے پانی بھی ہوا بھی ورنہ

بیج مٹی میں دبا ہو تو دبا رہتا ہے


رشید افروز

No comments:

Post a Comment