Monday 20 June 2022

کسی کی عینک کو مسئلہ ہے

 کسی کی عینک کو مسئلہ ہے


تمہارے جانے سے

اور کچھ بھی نہیں ہوا ہے 

بس وہ راستے کہ جن کی فٹ پاتھ پہ چلتے چلتے 

میں تمہارا ہاتھ پکڑنے کی جتن کرتا اور ہار جاتا 

نڈھال سے ہیں

وہ سُورج مُکھی کے چند بُوٹے

جو تمہارے چہرے کی تمازت کو 

سُوریا دیوتا کا آشیرواد کہتے تھے

اپنے پھولوں کے ذرد چہرے لیے کھڑے ہیں 

ایک روزن جو ایک رستے کی جانب کھلتی تھی 

لوگ کہتے ہیں نام تیرا وہ لے کے کہتی ہے؛ آ گئی ہے 

مگر نہیں ہے وہاں پہ کوئی کہ 

جھانک دیکھے تمہیں وہاں سے 

سو کل رات کھڑکی وہ رو پڑی ہے

تمہارے جانے سے اور کچھ بھی نہیں ہوا ہے

بس بے سبب شفاف شیشے

دُھندلے دُھندلے سے ہو رہے ہیں

کسی بھی منظر کو دیکھنے کی 

صلاحیت کو کھو رہے ہیں

یعنی کہ تمہارے جانے سے

کسی کی عینک کو مسئلہ ہے

اور ان درختوں  کا اگر زور چلتا

تو اپنے سائے اپنے اندر سما کے 

زمیں کو دھوپ کے حوالے کرتے 

اور احتجاج کرتے 

کہ تم یہاں سے چلی گئی ہو

تمہارے جانے سے اور کچھ بھی نہیں ہوا ہے


اسرار احمد لکوی

No comments:

Post a Comment