کسی کی عینک کو مسئلہ ہے
تمہارے جانے سے
اور کچھ بھی نہیں ہوا ہے
بس وہ راستے کہ جن کی فٹ پاتھ پہ چلتے چلتے
میں تمہارا ہاتھ پکڑنے کی جتن کرتا اور ہار جاتا
نڈھال سے ہیں
وہ سُورج مُکھی کے چند بُوٹے
جو تمہارے چہرے کی تمازت کو
سُوریا دیوتا کا آشیرواد کہتے تھے
اپنے پھولوں کے ذرد چہرے لیے کھڑے ہیں
ایک روزن جو ایک رستے کی جانب کھلتی تھی
لوگ کہتے ہیں نام تیرا وہ لے کے کہتی ہے؛ آ گئی ہے
مگر نہیں ہے وہاں پہ کوئی کہ
جھانک دیکھے تمہیں وہاں سے
سو کل رات کھڑکی وہ رو پڑی ہے
تمہارے جانے سے اور کچھ بھی نہیں ہوا ہے
بس بے سبب شفاف شیشے
دُھندلے دُھندلے سے ہو رہے ہیں
کسی بھی منظر کو دیکھنے کی
صلاحیت کو کھو رہے ہیں
یعنی کہ تمہارے جانے سے
کسی کی عینک کو مسئلہ ہے
اور ان درختوں کا اگر زور چلتا
تو اپنے سائے اپنے اندر سما کے
زمیں کو دھوپ کے حوالے کرتے
اور احتجاج کرتے
کہ تم یہاں سے چلی گئی ہو
تمہارے جانے سے اور کچھ بھی نہیں ہوا ہے
اسرار احمد لکوی
No comments:
Post a Comment