Monday 20 June 2022

کھود کر صحن دل عشق دبایا جا سکتا تھا

کھود کر صحنِ دل، عشق دبایا جا سکتا تھا

اذیت تھی مِری جاں مگر مُسکرایا جا سکتا تھا

اسے میں روک لیتا تو شاید وہ رُک جاتا

اس طرح سے لیکن کتنا نبھایا جا سکتا تھا

دعائیں بدل سکتی ہیں مقدر کی تحریریں

گویا نصیبوں کا لکھا مٹایا جا سکتا تھا

کہانی کار مجھے تیرے اختتام پر رونا آیا

آخر میں دیوانوں کو ملوایا جا سکتا تھا

کوشش تو کی ہوتی اسے یار منانے کی

ندامت کا کوئی گلدستہ بھجوایا جا سکتا تھا

عمر بھر جن سے نہ ملنے کا شکوہ رہا زبان پر

ان سے ملنے خود بھی تو جایا جا سکتا تھا

بالکل مُفت دیتا میں تمہیں مشورہ دوستو

صرف رُوٹھا ہی تو تھا، منایا جا سکتا تھا

کوزہ گر تمہیں جانے کس بات کی جلدی تھی

مجھے مجھ سے کہیں بہتر بنایا جا سکتا تھا

میرے دل میں جاناں بہت جگہ خالی تھی

تم چاہتے تو ایک گھر بنایا جا سکتا تھا

نگاہوں کے تصادم میں فقط اتفاق حائل تھا

سچ مچ کا حادثہ بھی مگر کروایا جا سکتا تھا

شریانوں میں مثلِ لہو دوڑتا ہے جو شخص

وہ شخص میرے نام پہ بٹھایا جا سکتا تھا

بہت دیر کر دی میں نے وقت کو روکنے میں

ورنہ آواز دے کر واپس بلایا جا سکتا تھا

انا کی بات تھی فیصل وگرنہ روٹھنے والوں کو

واسطہ دے کر محبت کا منایا جا سکتا تھا


فیصل ملک 

No comments:

Post a Comment