ہوس کی آنکھ میں جگنو مچلنے لگتے ہیں
نظر جھکا کے وہ جب ہاتھ ملنے لگتے ہیں
ذرا سی دیر میں شکلیں بدلنے لگتے ہیں
ہوا کے لمس سے بادل پگھلنے لگتے ہیں
ہے لازمی کوئی تحریک زندگی کے لیے
پڑے پڑے میاں! شہتیر گلنے لگتے ہیں
پرانی برف کا میں جب بھی ذکر سنتا ہوں
نہ جانے پاؤں مِرے کیوں پھسلنے لگتے ہیں
نئی روش یہ چلی ہے کہ کاٹ دو بازو
وگرنہ آستیں میں سانپ پلنے لگتے ہیں
میں اعتماد سے چلتا ہوں آسمانوں پر
مگر زمیں پہ مِرے پاؤں جلنے لگتے ہیں
رحمان مصور
No comments:
Post a Comment