Monday 20 June 2022

ہوس کی آنکھ میں جگنو مچلنے لگتے ہیں

 ہوس کی آنکھ میں جگنو مچلنے لگتے ہیں

نظر جھکا کے وہ جب ہاتھ ملنے لگتے ہیں

ذرا سی دیر میں شکلیں بدلنے لگتے ہیں

ہوا کے لمس سے بادل پگھلنے لگتے ہیں

ہے لازمی کوئی تحریک زندگی کے لیے

پڑے پڑے میاں! شہتیر گلنے لگتے ہیں

پرانی برف کا میں جب بھی ذکر سنتا ہوں

نہ جانے پاؤں مِرے کیوں پھسلنے لگتے ہیں

نئی روش یہ چلی ہے کہ کاٹ دو بازو

وگرنہ آستیں میں سانپ پلنے لگتے ہیں

میں اعتماد سے چلتا ہوں آسمانوں پر

مگر زمیں پہ مِرے پاؤں جلنے لگتے ہیں


رحمان مصور

No comments:

Post a Comment