Tuesday 21 June 2022

ہوا کی زد پہ تو کوئی چراغ رہنے دے

 ہوا کی زد پہ تو کوئی چراغ رہنے دے

یہ حوصلوں کی لڑائی ہے اس کو چلنے دے

نہ جانے کون بھٹکتا ہوا چلا آئے؟

کواڑ بند کیا ہے، دِیا تو جلنے دے

ابھی تو اور اٹھیں گے نقاب چہروں سے

یہ اقتدار کا سورج تو اور ڈھلنے دے

یہ کوئلہ سے بنا دیں گے تجھ کو اک ہیرا

یہ اندروں میں ہے جو آگ اس کو جلنے دے

کوئی تو ہے جو یہ اسرار کائنات میں ہیں

یہ سب کھلیں گے ذرا اور دن نکلنے دے

ندیم آئیں گے وہ بندھ کے کچے دھاگے سے

اس آرزو کو ذرا اور دل میں پلنے دے


عبداللہ ندیم

No comments:

Post a Comment