یہ جو وحشت ہے عقیدت بھی تو ہو سکتی ہے
میری یکطرفہ محبت بھی تو ہو سکتی ہے
ٹال دیتے ہو یوں ہی ہنس کے مِری باتوں کو
میری باتوں میں حقیقت بھی تو ہو سکتی ہے
بس یہی سوچ کے مندر میں نہیں جاتا میں
کوئی مُورت تِری صُورت بھی تو ہو سکتی ہے
اسی امید پہ میں جبر سہے جاتا ہوں
جبر کے بعد عنایت بھی تو ہو سکتی ہے
جب بہار آئے گلستاں کو نکل جاتا ہوں
تیرے چہرے کی زیارت بھی تو ہو سکتی ہے
تُو بس اک بار کبھی دیکھ آنکھوں میں
کوئی تحریر عبارت بھی تو ہو سکتی ہے
صغیر احمد صغیر
صغیر احمد احسنی
No comments:
Post a Comment