Saturday 18 June 2022

یہ جو وحشت ہے عقیدت بھی تو ہو سکتی ہے

 یہ جو وحشت ہے عقیدت بھی تو ہو سکتی ہے

میری یکطرفہ محبت بھی تو ہو سکتی ہے

ٹال دیتے ہو یوں ہی ہنس کے مِری باتوں کو

میری باتوں میں حقیقت بھی تو ہو سکتی ہے

بس یہی سوچ کے مندر میں نہیں جاتا میں

کوئی مُورت تِری صُورت بھی تو ہو سکتی ہے

اسی امید پہ میں جبر سہے جاتا ہوں

جبر کے بعد عنایت بھی تو ہو سکتی ہے

جب بہار آئے گلستاں کو نکل جاتا ہوں

تیرے چہرے کی زیارت بھی تو ہو سکتی ہے

تُو بس اک بار کبھی دیکھ آنکھوں میں

کوئی تحریر عبارت بھی تو ہو سکتی ہے


صغیر احمد

No comments:

Post a Comment