Wednesday 15 June 2022

کمبخت دل کو کیسی طبیعت عطا ہوئی

 کمبخت دل کو کیسی طبیعت عطا ہوئی

جب جب بھی دکھ اٹھائے، مسرت عطا ہوئی

پھر قحط سے مرے ہوئے دفنا دئیے گئے

اور چیونٹیوں کے رزق میں برکت عطا ہوئی

اس حکم میں تھی ایسی رعونت کہ پہلی بار

ہم بزدلوں کو کفر کی ہمت عطا ہوئی

میں کیوں نہ فخر اُدھڑی ہوئی کھال پر کروں

اک شعر تھا کہ جس پہ یہ خلعت عطا ہوئی

مے خوار یار بھی تھے وہیں، مے فروش بھی

دوزخ میں ہم کو چھوٹی سی جنت عطا ہوئی

مرتی محبتوں کے سرہانے پڑھا درود

اور پہلے وِرد سے ہی سہولت عطا ہوئی

پتھر تھا، صدیوں رگڑا گیا، آئینہ بنا

تب جا کے مجھ کو تیری شباہت عطا ہوئی

انعام عشق کا تو بہت بعد میں ملا

پہلے تو مجھ کو عشق کی حسرت عطا ہوئی

مزدوری کر کے بیٹھا رہا میں کئی برس

لیکن پسینہ سوکھا، نہ اُجرت عطا ہوئی


رحمان فارس

No comments:

Post a Comment